Posts

Ham Apni Qabron Main Sans Ley Rahey Hain

Image
  ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی جھموریت آئی نہ مارشل لا آئی ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی اسلام تھا نہ کبھی سوشلزم، کمیونزم ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ مصائب آئے نہ کبھی خوشیاں ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ وطن پرستی تھی نہ کبھی غداری تھی ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی کوئی انسان تھا نہ کوئی خدا یہاں یہ سب باھر کی چیزیں ہیں یہ ہمیں سب دور سے ملیں ان میں سے کسی چیز کو ہم میں سے کسی نے اپنی آنکھوں سے کوئی مشاھدہ نہیں کیا ہمارے پاس ان میں سے جو چیز ملی وہ ان کی بگڑی صورت تھی جسے ہم نے مکمل گمان کر لیا کہ یہ ایسی ہونگی انسان جن حالات میں رہ کر جن چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور ابزرو کرتا ہے اور جو ان کو دور سے سنتا ہے اور اس دور کے سنے سے جو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے غمان غالب ہے کہ وہ کبھی ویسا نہ کر پائے نہ سمجھ پائے یہی وجہ تھی کہ یہاں وہ سب کچھ ان کی بگڑی صورت میں ہم تک پہنچا اور اسے ہم نے کامل سمجھ لیا یوں معاشرہ ایک بگڑی شکل کو حتمی شکل سمجھ کر معاشرے کے تباھ کاریوں کا سبب بنا ہے۔ میں نے اپنی حقیر ناقص اور لاعلمی کی بنیاد پر جو محسوس کیا ہے کہ یہاں ہر چیز کا اب تعارف ہی بد...

Ulti Chalang

Image
ہم اکثر و بیشتر چیزوں کو ایک ہی پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں حالانکہ ھر چیز کے پہلو یا زاویے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ہم چیزوں کو اپنے مطابق دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چیزوں کو چیزوں کے مطابق دیکھنے کا ہنر آنا چاہیے۔ چیزوں میں کبھی بھی کوئی برائی نہیں ہوتی برائی یا غلطی اس کے استعمال میں ہو سکتی ہے اکبر بادشاہ نے ایک بار اپنے خاص درباری بیربل سے کہا کہ بادشاہ کو کبھی تبدیل نہیں ہونا چاہیے بادشاہ ہمیشہ بادشاہ رہنا چاہیے حتیٰ کہ بادشاہ کو کبھی موت بھی نہیں آنی چاہیے بیربل نے کہا عالی جناب آپ نے درست فرمایا لیکن اگر ایسا ہوتا تو آپ کبھی بھی بادشاہ نہ بن پاتے کیوں کہ بادشاہوں کا یہ سلسلہ آپ کے پیدا ہونے سے کافی پہلے سے چلا آ رہا ہے تو پہر آپ کیوں کر بادشاہ بن پاتے۔ اکبر نے اس اصول کو اپنی بادشاہی سے منسوب کر کے بنانا چاھا یہ نہیں سوچا کہ یہ اصول خود میرے خلاف ہوتا اگر یہ اصول واقعی میں کوئی اصول ہوتا۔ اور ہمارے ملک کا المیہ بھی یہی ہے کہ ھر بادشاہ نے ہر اصول کو اپنی ذات کو منسوب کر کے بنایا ہے یہاں ادارے یہاں قانون اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ ان سے وطن عزیز کو کوئی فائدہ ہو بلکہ ان...

Tabligh Preaching

Image
  اسلام کی تبلیغ اور صبح سے رات تک پانچ مرتبہ نماز کا بلاوہ کیوں اپنا اثر ضایع کر چکا ہے اس کی سادی وجہ ہے وہ یہ کہ اسلام سب سے پہلا اور آخری بھترین دین تھا جو آج اپنی اھمیت کھو چکا ہے اس کی وجہ کوئی اسلام کا نقص نہیں اس کی وجہ ناقص مسلمان ہیں اگر آج آپ جاپان جائیں ان کو تبلیغ کریں کہ آپ غلط راستے پر ہیں آپ اسلام کو قبول کر لیں آپ یہ یہ فلاں اچھے کام کریں گے یعنی راستے سے پتھر ھٹائیں گے، کسی بھولے کو اس کا راستہ بتا دیں گے، وعدہ خلافی نہیں کریں گے، ایماندار ہونگیں،اعلی اخلاق پر ہونگے، وغیرہ وغیرہ تو آپ کو ثواب ہوگا اور آپ جنت کے راستے پر ہونگیں تو کیا یہ باتیں کوئی فرق ڈال سکتیں ہیں کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں قطعی نہیں کیوں کہ وہ یہ تو پہلے سے ہی کر رہے ہیں وہ اپ کے اس لاجک کو انڈر اسٹینڈ نہیں کر پائیں گے کیوں کہ رسول اللہ نے جو تبلیغ زبان اور کردار سے کی تھی وہ معاشرہ پستی میں گرا ہوا تھا وہاں یہ باتیں معنیٰ رکھتی تھیں آج اس کا الٹ ہے ایک دوکھے باز ،ایک ملاوٹ کرنے والا ،ایک دوسروں کا راستہ بند کرنے والا ،ایک دوسرے کو اپنے سے کمتر سمجھنے والا ،ایک جسکا کام ہی وعدہ خلافی رہ گیا ہو ، ...

Our Journey

Image
  انسان کی یہ نیچر ہے کہ وہ سوال پوچھتا ہے اور اس کا جواب دینے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے تو کیا معاملہ ہے کہ انسان سوال بھی پوچھتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے ان دونوں معاملات کا تعلق علم سے ہے۔ علم ہی سے سوال کا ذھن بنتا ہے اور علم ہی سے جواب کا ذھن بنتا ہے لیکن دونوں علوم میں ایک بنیادی فرق ہے سوال کا تعلق علم کی مزید حاصلات ہے اور جواب کا تعلق اس مزید علم تک پہنچ چکنا ہے۔   لیکن جب جواب کے مقابلے میں سوال ابھرے تو وہ سوال شعور کا معاملہ ہے نہ کہ علم کا۔ شعور وہ جگہ ہے جہاں سے علم کا گذر محتاط ہو جاتا ہے کیوں کہ شعور علم کی کسوٹی بھی ہے اور یہ سوال علم کے سفر سے شعور تک پہنچتا ہے اب اس کا جواب بھی شعور کے تحت ہونا چاہیے نہ کہ علم کے تحت جب انسان ان چیزوں کا لحاظ نہ کر پائے تو جو صورت حال بنتی ہے وہ ابھام کی صورت ہے اور ابھام وہ جگہ ہے جہاں سے حاصلات کے سفر کی واپسی ہے آپ سفر وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں آپ ہیں جب ہمارے بڑے اگے جانے کے بدلے پیچھے کی طرف سفر کر کے جہاں ہمیں چھوڑ گئے ہیں ہمارا سفر پہر وہیں سے شروع ہوتا ہے اب اگر آپ اسی ابھام میں گہرے ہوئے ہیں تو آپ کا سفر پہر مز...

Principles

Image
  اگر انسان کو دنیا میں بہتر زندگی گذارنے کے لیے جو سب سے زیادہ اھم چیز کی تلاش کرنی چاہیے یا جس کا سب سے زیادہ اھم کردار ہو سکتا ہے تو وہ ایک لفظ میں یہ ہوگا کہ اصول۔ اصولوں کی اھمیت کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ موجود ہے دوسرا کوئی راستہ موجود ہی نہیں اور وہ ہے فطرت کا راستہ جسے سمجھے بغیر آپ اصولوں کو نہیں سمجھ سکتے کہ آخر یہ اصول ہیں کیا اور کیوں ضروری ہیں ۔ زندگی سے فطرت کو نکال دیا جائے یا فطرت سے زندگی کو نکال دیا جائے تو دونوں چیزیں اپنی قیمت اور اھمیت کھو دیں گی۔ اگر آپ یہ مان لیں کہ فطرت ہی زندگی ہے اور زندگی ہی فطرت ہے تو یہ غلط بات نہیں ہوگی۔ فطرت اپنے اصولوں کے مطابق اپنے اصولوں کی پابند ہے لیکن اکثر و بیشتر انسان کسی بھی اصول کا پابند نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ وہ اس چیز سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے جو لگے بندھے اصولوں کے مطابق ان اصولوں کی پابند ہوتی ہے یعنی فطرت سے جب بھی ٹکرائو ہوگا تو نقصان فقط ٹکرائو کرنے والے کا ہوگا کیوں کہ یہی اصول و ضوابط ہیں جو کسی کو ٹکرائو سے روکے رکھتے ہیں۔ انسان کو ہر حال میں فطرت سے ھم آہنگ رہنا ہوگا اسی میں انسان کی بقا ہے۔ انس...

Availability And Unavailability

Image
  یہ دنیا عجیب طرز سے بنائی گئی ہے یہاں جو کسے کے لیے "ہے" وہ اس کے لیے ناکافی ہے اور یہاں وہی جو کسی کے پاس "نہیں ہے" وہ اس کے لیے ایک مقصد ہے ان دونوں باتوں کے درمیان جو فرق ہے وہ ہے "سوچ" کا اور "سمجھنے" کا انسان تب نقصان اٹھاتا ہے جب وہ اپنے مقصد کو ایک طرفہ طور پر دیکھتا ہے اگر وہ اس چیز کا مطالعہ کرے کہ جو میرے پاس "ہے" وہ جس کے پاس "نہیں ہے" اس کی کیا کیفیت ہے تو معاملہ کسی قدر آسان ہو جائے گا۔ جو "ہے" کسی کے لیے ناکافی ہے اسے چاہیے کہ اس کا بھی مطالعہ کرے جس کے پاس اس "ہے" سے بھی "زیادہ "ہے" تو کیا وہ جو اس کے پاس "ہے" وہ اس "ہے" سے مطمئن ہے یقیناً آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی اس"ہے" سے غیر مطمئن ہے جو آپ کی " ہے" سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح جو "ہے" آپ کے پاس ہے اور وہ "ہے" جس کے پاس نہیں تو کیا وہ آپ کی "ہے" کو پاکر مطمئن ہو سکے گا یقیناً نہیں کیوں کہ وہ بھی آپ میں سے ہے جیسے آپ اپنی "ہے" سے مطمئن نہیں تو جو اس ...

Weightless بے وزنی

Image
  مولانا وحید الدین خان نے اپنے کتاب ڈائری کے صفحے نمبر 216 پر ایک واقعہ نقل کیا ہے جو اس طرح ہے تین "خلائی ہیرو راکیش شرما ، پوری مالی شو ، گناڈی اسٹریکالوف اپریل 1984 کو اپنے اٹھ روزہ خلائی سفر سے زمین پر اترے تو وہ خلا میں پانچ ملین کلو میٹر کا سفر طے کر چکے تھے۔ مگر جب انکو خلائی مشین سے باہر نکال کر دوبارہ زمین پر لایا گیا تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے معذور تھے اس دن ٹیلیویژن پر خلائی پروگرام دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مسٹر شرما زمین پر ایک مفلوج کی طرح پڑے ہوئے ہیں ان کے چہرے پر سخت شرمندگی کے آثار ہیں اور لوگ ان کا بازو پکڑ کر ان کو کرسی پر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اس کی وجہ ان کا بی وزنی کی حالت میں آٹھ دن رہنا تھا مسٹر شرما اور ان کے روسی ساتھی جب زمین سے تین سئو کلومیٹر اوپر خلا میں اڑان کر رہے تھے تو ان کا جسم بلکل بے وزن ہو چکا تھا وہ خلائی گاڑی کے اندر اسی طرح تیرتے تھے جیسے مچھلی پانی میں تیرتی ہے مسٹر شرما نے ایک خلائی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس وقت میں اپنے ٹوتھ پیسٹ اور برش کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں جو میرے ھاتھ سے چھوٹ کر چھت پر جا لگے ہیں...