تجھ سے محبت کرنے سے ڈرتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
اسی لیے تو محبت نہیں کرتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
ایک دن دل سے اپنے کی ملاقات میں نے اور پوچھا سبب
کیوں اتنا دھڑکتا ہے کہا دھڑکتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
تیری باتیں تیری ادائیں تیری دلکشی تیرے اتنے واعدے
ان خیالوں سے پہر سنبھلتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
اتنے لوگ اتنے اغیار اتنے اعیار اتنے اندھیرے اتنے غبار
تیری محفل سے اب چلتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
تجھ سے تو بھاگوں تیرے خیال سے بھاگ کر جائوں کہاں
دن رات یوں ہی آوارہ بھٹکتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
جو تجھ سے کہا جو تجھ سے سنا مگر سچ کچھ اور ہے
بتائوں تجھے میں تجھ پر مرتا ہوں کہ مر نہ جاؤں کہیں
Tags:
poetry