ہم اکثر و بیشتر چیزوں کو ایک ہی پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں حالانکہ ھر چیز کے پہلو یا زاویے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ہم چیزوں کو اپنے مطابق دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چیزوں کو چیزوں کے مطابق دیکھنے کا ہنر آنا چاہیے۔ چیزوں میں کبھی بھی کوئی برائی نہیں ہوتی برائی یا غلطی اس کے استعمال میں ہو سکتی ہے اکبر بادشاہ نے ایک بار اپنے خاص درباری بیربل سے کہا کہ بادشاہ کو کبھی تبدیل نہیں ہونا چاہیے بادشاہ ہمیشہ بادشاہ رہنا چاہیے حتیٰ کہ بادشاہ کو کبھی موت بھی نہیں آنی چاہیے بیربل نے کہا عالی جناب آپ نے درست فرمایا لیکن اگر ایسا ہوتا تو آپ کبھی بھی بادشاہ نہ بن پاتے کیوں کہ بادشاہوں کا یہ سلسلہ آپ کے پیدا ہونے سے کافی پہلے سے چلا آ رہا ہے تو پہر آپ کیوں کر بادشاہ بن پاتے۔
اکبر نے اس اصول کو اپنی بادشاہی سے منسوب کر کے بنانا چاھا یہ نہیں سوچا کہ یہ اصول خود میرے خلاف ہوتا اگر یہ اصول واقعی میں کوئی اصول ہوتا۔ اور ہمارے ملک کا المیہ بھی یہی ہے کہ ھر بادشاہ نے ہر اصول کو اپنی ذات کو منسوب کر کے بنایا ہے یہاں ادارے یہاں قانون اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ ان سے وطن عزیز کو کوئی فائدہ ہو بلکہ ان سے ان بناے والے کو کیا فوائد ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں قانون اصول بدل دیے جاتے رہے ہیں جب ایک کسی قانون کو بدلے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دوسرے کو بھی یہی راستہ فراھم کر رہا ہے کہ وہ بھی ان قوانین کو یا اصولوں کو بدل سکے حالیہ صورت حال سے ان چیزوں کو سمجھنا بلکل آسان ہو گیا ہے جب ایک آدمی روڈوں کو بلاک کرکے دھرنے کی روایتوں سے اسیمبلی میں پہنچا ہے تو کیا مضاحکہ ہے کہ دوسرا ایسے نہ کرے اور حال ہی میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ دوسروں نے بھی اس اصول سے جیت حاصل کی ہے اب اگر اس بنائے ہوئے اصول کو وہ خود بنانے والا ہی غلط کہہ اور سمجھ رہا ہے کیوں کہ جب اس نے اس کی شروعات کی تھی تو وہ اصول وہ طریقہ اس وقت صحیح تھا کیوں کہ وہ اس نے اپنے سے منسوب کر کے بنایا تھا۔
اسی طرح ابھی تازہ تازہ ایک ووٹنگ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا نتیجہ بھی یہی نکلنا ہے کیوں کہ یہ ملک کے مفاد کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا جا رہا بلکہ یہ بھی کسی فرد یا ادارے کے حق میں بنایا جا رہا ہے اور پہر اس کا رونا بھی کیا رونا ہوگا جب اسے کوئی اور فرد یا کوئی اور ادارہ اپنے حق میں استعمال کرے گا۔
ایک انگریزی اخبار میں چھپا ایک واقع ہے کہ آسٹریلیا سڈنی کی ایک جیل میں ایک قیدی اپنی قید کی زندگی سے اکتا گیا تھا اور وہ ہر حال میں وہاں سے نکلنا چاہتا تھا ایک مرتبہ اس نے ایک جراتمندانہ اقدام کیا، جیل میں باھر سے ایک ٹرک آیا اس نے موقعہ جان کر جیسے تیسے اس ٹرک میں چھپ کر سوار ہوگیا کچھ دیر بعد وہ ٹرک اس جیل سے باھر کی طرف چل پڑا دس سے پندرہ منٹ چلنے کے بعد وہ ٹرک کہیں جا کر رک گیا اس قیدی نے ابھی باہر کی طرف دیکھا ہی تھا اسے معلوم ہوا کہ وہ ٹرک ایک جیل سے نکل کر دوسری جیل میں آکر رک گیا تھا وہ ایک جیل کا ٹرک تھا جو جیل سے جیل جانے کے امور انجام دیتا تھا وہ قیدی جیل کی زندگی سے بہت ڈرا ہوا تھا اس کے ذھن میں ایک ہی چیز سوار تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل کی بند دنیا سے آزاد ہوکر باھر کی کھلی دنیا میں پہنچ جائے اس قیدی کے لیے فقط ایک چیز تبدیل ہوئی کہ وہ ایک جیل سے دوسری جیل میں آن پہنچا کیوں کہ اسے باہر جانے کے لیے فقط ٹرک درکار تھی لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ ٹرک کے علاوہ اسے یہ بھی جاننے کی ضرورت تھی کہ جس سواری پر وہ سوار ہو رہا ہے اس نے آگے کہاں جانا ہے۔
Tags:
mukalma