تو زندگی کے فلسفے کی طرح ہے
اعتماد میں آئے دھوکے کی طرح ہے
تو گلستان کو بھی بنائے ہے ریگستان
تو ریگستان میں جھرونکے کی طرح ہے
تیرے نام سے کہیں مجھے بھی نام ملے
کبھی نہ چلے کھوٹے سکے کی طرح ہے
بس ھاتھ میں آ ہی چکا تھا کہ دور نکل گیا
تو بھی قدرت کے کسی لکھے کی طرح ہے
تیرا آنا اس لیے بھی اب شاید ممکن نہیں
سمجھا ہونکہ تو وقت جا چکے کی طرح ہے
منزل ہے یا ابھی بھی راستے پر ہی ہوں میں
زندگی تو بھی مسافر بھٹکے کی طرح ہے
اتنا جلا ہوں کہ اب لوگوں کو ٹھنڈک ملی ہے
رزاق تو جھوپڑے میں پڑے مٹکے کی طرح ہے
Tags:
poetry