تجھے سے ملاقات جب بند ہو گئی
جینے کی راہ سب بند ہو گئی
موت کھلے عام چلنے لگا جب جب
چھپ کے زندگی کہیں تب بند ہو گئی
آنکھیں انتظار میں جھپکنا بھول گئیں
اور تونے سمجھا کہ طلب بند ہو گئی
مجھے کوئی اب بے چین نہ سمجھے
نہیں معلوم بے قراری کب بند ہو گئی
جو تجھے دیکھتے ہی مچلنے لگی تھی
وہ نبض تیری جانے سے اب بند ہو گئی
کسی نے پوچھا کہ کیسے مر گیا رزاق
بتایا گیا کہ حرکت قلب بند ہو گئی
Tags:
poetry