اگر انسان کو دنیا میں بہتر زندگی گذارنے کے لیے جو سب سے زیادہ اھم چیز کی تلاش کرنی چاہیے یا جس کا سب سے زیادہ اھم کردار ہو سکتا ہے تو وہ ایک لفظ میں یہ ہوگا کہ اصول۔ اصولوں کی اھمیت کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ موجود ہے دوسرا کوئی راستہ موجود ہی نہیں اور وہ ہے فطرت کا راستہ جسے سمجھے بغیر آپ اصولوں کو نہیں سمجھ سکتے کہ آخر یہ اصول ہیں کیا اور کیوں ضروری ہیں ۔
زندگی سے فطرت کو نکال دیا جائے یا فطرت سے زندگی کو نکال دیا جائے تو دونوں چیزیں اپنی قیمت اور اھمیت کھو دیں گی۔
اگر آپ یہ مان لیں کہ فطرت ہی زندگی ہے اور زندگی ہی فطرت ہے تو یہ غلط بات نہیں ہوگی۔
فطرت اپنے اصولوں کے مطابق اپنے اصولوں کی پابند ہے لیکن اکثر و بیشتر انسان کسی بھی اصول کا پابند نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ وہ اس چیز سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے جو لگے بندھے اصولوں کے مطابق ان اصولوں کی پابند ہوتی ہے یعنی فطرت سے جب بھی ٹکرائو ہوگا تو نقصان فقط ٹکرائو کرنے والے کا ہوگا کیوں کہ یہی اصول و ضوابط ہیں جو کسی کو ٹکرائو سے روکے رکھتے ہیں۔
انسان کو ہر حال میں فطرت سے ھم آہنگ رہنا ہوگا اسی میں انسان کی بقا ہے۔
انسان کی پیدائش فطری طریقہ پر ہوتی ہے اور اس کی موت بھی فطری طریقے پر ہوتی ہے لیکن انسان ان دونوں چیزوں کو ابزرو نہیں کر پاتا جب پیدائش ہوتی ہے تو اسے فطرت کا ادراک نہیں ہوتا اور جب موت ہوتی ہے تو وہ اپنی ابزرو سے کچھ حاصل نہیں کرپاتا اس لیے وہ پیدائش اور موت کے بیچ والے حصے کو بھی فطرت سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا۔
دنیا کے سارے عظیم انسان فطرت کے غور وفکر سے عظیم بن پائے انہوں نے اپنی ابزرویشن سے فطرت کے اصولوں کو دوسروں تک پہنچایا یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے کچھ تخلیق کیا تھا بلکہ پہلے سے تخلیق شدہ اصولوں کو دوسروں کے علم میں لانے کا کام کیا جو پوری انسانیت پر ان کا قرضہ ہے دنیا میں فطرت میں گریوٹی پہلے سے موجود تھی لیکن انسان نے اسے صرف جانا اسے بنایا یا تبدیل نہیں کیا فطرت میں فورس کا قانون پہلے سے موجود تھا انسان نے اسے صرف جانا، یہ سب کیوں کر ہو پایا وہ اس لیے کے فطرت اصول کی پابند ہی اتنی تھی کہ اس سے کچھ بھی جانا جا سکتا تھا یا کچھ بھی جانا جا سکتا ہے اگر فطرت سے اصولوں کو نکال دیا جائے یا فطرت اپنے اصول کھو دے تو آپ مٹی کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں آپ جو وقت کو سیکنڈ اور نینو سیکنڈ میں تبدیل و تقسیم کیے بیٹھے ہیں اس وقت کا گھنٹہ بھی نہیں جان سکتے۔
فطرت کی اہمیت فقط اس کے اصولوں کی وجہ سے ہے یہ اصول نہ ہوں تو فطرت کی کوئی اھمیت نہیں رہتی تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ اصول سب سے زیادہ اھم ہیں انسان جب اپنے آپ کو اصول کے سانچے میں ڈھال دے گا تو ہی وہ انسان کہلائے جانے کا حقدار ہوگا اور پہر ہی اس کی قیمت و اھمیت بن پائے گی۔
ایک اسلامک اسکالر امام احمد بن حنبل ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے تھے دوران پڑھائی احمد بن حنبل نے بتایا کہ اگر ایک شخص کسی بے گناہ شخص کے ھاتھ کی ایک انگلی توڑے گا تو بدلے میں اس کی انگلی توڑی جائے گی یا وہ اس انگلی کے بدلے میں دس اونٹ جرمانہ ادا کرے گا اگر دو انگلیاں ہوئی تو بیس اونٹ، تین پر تیس، ایسے پانچوں انگلیوں کے بدلے پچاس اونٹ جرمانے میں متاثرہ شخص کو ادا کرے گا یعنی ایک ھاتھ کی قیمت پچاس اونٹ بنتی ہے جب احمد بن حنبل اپنی بات پوری کر چکے تو ایک شاگرد نے کہا مجھے آپ کی بات اصول کے خلاف لگتی ہے
امام نے کہا کیسے، تفصیل بتائیں شاگرد نے بتانا شروع کیا کہ اسلام کا اصول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک درھم چوری کرتا ہے تو اس کا ھاتھ کاٹ دیا جاتا ہے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ پچاس اونٹ چوری کرے یا اس کی مالیت کے برابر چوری ہو تو ھاتھ کاٹا جائے لیکن ایسا نہیں ہے تو اس اصول کے مطابق آپ کی بات اس اصول کی پابند نظر نہیں آتی، احمد بن حنبل نے کہا آپ ٹھیک کہ رہے ہیں لیکن آپ ایک بات کو نہیں سمجھ سکے کہ اگر کوئی انسان اس اصول کا پابند ہے کہ دوسرے کی چیز کو چرانا غلط بات ہے اور وہ انسان چور نہیں تو اس انسان کی اھمیت اتنی زیادہ ہے وہ اتنا قیمتی ہے کہ اس کی ایک انگلی دس اونٹ کے برابر ہے لیکن جب ایک انسان اپنے پہلے اصول کو توڑ دیتا ہے اور وہ کسی کی کوئی چیز چوری کرتا ہے تو ایسے بے اصول انسان کی کوئی اھمیت یا کوئی قیمت نہیں اس لیے اس کا ھاتھ ایک درھم پر بھی کاٹ دیا جاتا ہے۔
اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اصول کتنے با معنیٰ ہیں
Tags:
mukalma