Ham Apni Qabron Main Sans Ley Rahey Hain

 ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی جھموریت آئی نہ مارشل لا آئی

ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی اسلام تھا نہ کبھی سوشلزم، کمیونزم
ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ مصائب آئے نہ کبھی خوشیاں
ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ وطن پرستی تھی نہ کبھی غداری تھی
ہمارا خطہ وہ خطہ ہے جہاں نہ کبھی کوئی انسان تھا نہ کوئی خدا
یہاں یہ سب باھر کی چیزیں ہیں یہ ہمیں سب دور سے ملیں ان میں سے کسی چیز کو ہم میں سے کسی نے اپنی آنکھوں سے کوئی مشاھدہ نہیں کیا ہمارے پاس ان میں سے جو چیز ملی وہ ان کی بگڑی صورت تھی جسے ہم نے مکمل گمان کر لیا کہ یہ ایسی ہونگی انسان جن حالات میں رہ کر جن چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور ابزرو کرتا ہے اور جو ان کو دور سے سنتا ہے اور اس دور کے سنے سے جو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے غمان غالب ہے کہ وہ کبھی ویسا نہ کر پائے نہ سمجھ پائے یہی وجہ تھی کہ یہاں وہ سب کچھ ان کی بگڑی صورت میں ہم تک پہنچا اور اسے ہم نے کامل سمجھ لیا یوں معاشرہ ایک بگڑی شکل کو حتمی شکل سمجھ کر معاشرے کے تباھ کاریوں کا سبب بنا ہے۔
میں نے اپنی حقیر ناقص اور لاعلمی کی بنیاد پر جو محسوس کیا ہے کہ یہاں ہر چیز کا اب تعارف ہی بدل چکا ہے جسیے یہاں جھموریت کبھی نہیں آئی ہے یہاں ھر جھموریت کے پیچھے ڈکیٹیٹر رہا ہے اور یہاں اور ڈکٹیٹر نے اپنے آگے جھموری نظام کو رکھا ہے مطلب یہاں سادہ ہے کہ ھر ڈکٹیٹر کے آگے جھموریت رہی ہے اور ہر جھموریت کے پیچے ڈکیٹیٹر رہا ہے نہ ہمیں جھموریت ملی نہ ڈکٹیٹر شپ ہم ان دونوں سے بلکل لا علم ہیں کیوں کہ نہ یہاں ڈکٹیرشپ کی کوئی پریکٹس ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی نہ ہی جھموریت کی۔ اب جو ان دونوں کی بگڑی شکل ہمارے سامنے آئی ہم نے اس پر اختصار کر لیا کہ یہی جو کچھ ہے یہی سب کچھ ہے ۔
اسی طرح جو اسلام رائج ہے وہ اسلام سے کوسوں دور ہے ویسے یہاں جو مارکس اور سوشلزم کے پرچارک ہیں وہ ان کے اصل ماخذ سے کوسوں دور ہیں یہ بڑی گھمبیرتا ہے اور دونوں کے خیال نظریات جو کہ قطعی طور پر غلط ہیں اور یہ دونوں غلط اپنے آپ کو صحیح کرنے کو تلے ہوئے ہیں انگریزی پروورب کے مطابق Nothing Comes Nothing ان میں سے بھی کیا مل جا نا ہے جن کے اندر کچھ بھی نہیں ہے ایک برتن جو بلکل خالی ہو اور آپ ھزار بار اس میں ھاتھ ڈال کر کچھ نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں تو کیا آپ سمجھتے ہیں اس برتن میں سے کچھ نکل پائے گا ؟
یہاں کوئی انسان بھی نہیں یہاں کوئی خدا بھی نہیں
انسان بھی کہیں دور بستے ہیں اور یہاں کا خدا تو ویسے بھی دور ہے جو عرش عظیم پر عرش عظیم اتنا دور ہے کہ جدید سانس کے دور میں جدید دوربینیاں ابھی ستاروں میں الجھی ہوئی ہیں عرش تو دور کی بات اور عرش عظیم تو ناممکنات کے کھاتے۔
یہاں انسان کی بھی بگڑی شکل موجود ہے جو خدا کا غلط تعارف لیے دونوں غلط ایک صحیح کو برآمد کرنے کی ناکام کوشش ہے ۔
ہم نے صحیح انسان کو بھی دور سے سنا ہے ہم نے آج تک صحیح انسان کی بیچ رہ کر اپنی آنکھوں سے کوئی مشاہدہ نہیں کیا ہمارے پاس جو انسان ہیں وہ انسان کی بگڑی صورت میں موجود ہیں یہ دعوے بھی دوسروں اوپر ذکر کیے ہوے طریقوں کے مطابق ان جیسے ہی ہیں یہاں جو خدا کا تعارف ہے وہ بھی بگڑی صورت میں ہے اصل خدا کے تعارف سے بلکل یکسر مختلف یہاں غریب کے خدا اور امیر کے خدا الگ الگ ہیں ان کے خدائوں کا کام اور طاقت بھی الگ الگ ہے یہاں مشکل میں زندگی گذارنے والے کا خدا خوشیوں کی زندگی گزارنے والے خدا سے یکسر مختلف ہے یہاں بلندیوں پر رہنے والے انسان کا خدا پستی و ذلت کی زندگی گزارنے والے انسان کے خدا سے بھی مختلف ہے کیوں کہ یہ سب اس بگاڑ کا نتیجہ ہے جو ہم نے سب بگڑی صورتوں کو صحیح کر کے سمجھا ہوا ہے ہمیں ان بگڑی صورتوں سے نکلنا ہے جس نے ہماری اپنی بھی صورتیں بگاڑ دیں ہیں۔
اب ایک صورت بچتی ہے وہ ہے تحقیق اور تحقیق کے معاملے میں ، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہاں
عجیب المیہ ہے بلکہ ان تمام المیوں میں عجیب تر المیہ ہے کہ ہم جسے اور جو تحقیق کرتے ہیں وہ بھی تحقیق کی ایک بگڑی صورت ہے کیوں کہ یہاں سب کچھ بگڑا ہوا ہے یہاں تک یہاں لفظ "بگڑے" کی معنیٰ بھی بگڑی ہوئی ہے۔
ہم تحقیق کو بھی حصار اور قید کا پیوند لگا دیتے ہیں کہ اگر ہماری تحقیق فلاں حصار یا فلاں چیز کو متاثر کر دے گی تو ہماری تحقیق وہیں رک جانی چاہیے یہ تحقیق کی کسوٹی ہے کیوں کہ ہمیں ان چیزوں سے پیار ہے مطلب ہے عقیدت ہے جسے تحقیق نے متاثر کر دینا ہے ہم تحقیق کو تو ترک کر سکتے ہیں کیوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جہاں سب کچھ پہلے سی ہی بگڑا ہوا ہے اور اس بگڑنے کے باوجود ہم چل ہی رہے ہیں لیکن جس سے ہماری مطلب ہیں جن سے ہماری عقیدت ہے جن سے ہماری ذات کو پشیمانی ملنی ہے اور ہم نے رک جانا ہے وہ سب کیوں کر کیا جائے اس چیز کے لیے جس سے کوئی فرق نہیں پڑنا پہر کیوں ایسی چیزوں کو چھیڑا جائے جس سے ہمیں ہماری ذات کو فرق پڑ جاتا ہو اور جس سے ہمارے عھدے ڈھ جاتے ہوں
یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ ہم اپنی قبروں میں سانس لے رہے ہیں۔



Post a Comment

Previous Post Next Post