حضرت انسان کی شروعات کا منمبہ تکرار گواہی اور پہر انکار پر مشتمل ہے، کیسے وہ ایسے کہ اللہ نے جب آدم کو بنایا تو آدم کی شروعات فرشتوں شیطان اور اللہ کی تقرار سے شروع ہوتی ہے یعنی آدم کو شروعات میں ہی تنازعے کا سامنا رہا حالانکہ وہ تقرار آدم کی نہیں تھی آدم کا ڈاریکٹ اس تقرار سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب اس تقرار کا نتیجہ برآمد ہوا یعنی فرشتوں کا اپنی بات سے رجوع اور شیطان کا اپنی بات پر اڑ جانا جب شیطان اللہ کی ذات سے انکاری ہوا تو اس نے فرشتوں کو گمراہ کرنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی کیوں کہ شیطان نے یہ جان لیا تھا کہ جو تقرار شروع ہوئی ہے اس کا سبب آدم ہے نہ کہ فرشتے کیوں کہ اس وقت شیطان اور فرشتوں نے ایک ہی موقف رکھا تھا تو شیطان نے آدم کو ٹارگیٹ کیا اس ٹارگیٹ کے نتیجے میں آدم ان ڈاریکٹ اس تقرار کا حصہ تب بنا جب آدم نے بھی غلطی کی اور شیطان کو اس کی پہلی کامیابی کا موقعہ فراھم کیا اس طرح آدم کو اس کی سزا ملی اور وہ اس تقرار میں شامل قرار پایا۔اس سے ظاھر ہوا کہ حضرت آدم کی شروعات ایک تقرار ہے۔ جو حضرت انسان کا پہلا فیلیوئر ہے۔
اس کے بعد کا معاملہ ہے گواہی کا آدم کے بعد بقایا پوری انسان ذات نے گواھی دی تھی کہ ھاں تم ہی ہمارے رب ہو اس کے بعد زمیں پر انے کے بعد اس دنیا کے میکینزم کو نہ سمجھتے ہوئے وہ اس گواہی سے دستبردار ہوگیا انسان ان معاملات میں الجھ گیا جو اس کے تھے ہی نہیں اور جو معاملات اس کے تھے یعنی انسانوں کے بیچ رہ کر خدا تک رسائی وہ رسائی جو ان کے باپ آدم کی غلطی سے ممکن ہوئی حضرت انسان اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس میں ناکام رہا یہ حضرت انسان کا دوسرا فیلیوئر ہے۔اور تیسرا ہے انکار یہ سب سے مشکل ہے سمجھنا بھی اور سمجھانا بھی کیوں کہ اس انکار کا سبب فقط خدا ہے جو انسان سے انکار کے بعد ہی والا اقرار چاھتا ہے اور یہ خاصہ مشکل مرحلہ ہے کیوں جب وہ ال اللہ کا تصور دیتا ہے تو ہہلے حضرت انسان سے لا الہ پر ایمان کی ڈیمانڈ کرتا ہے کہ کوئی خدا نہیں جب انسان کوئی خدا نہیں کو مکمل سمجھ لے تب جا کہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے لیکن انسان اس پہلے مرحلے میں دونوں طریقوں سے تقریباً ناکام ہو جاتا ہے لا الہ سے جب وہ ال للہ تک پہنچتا ہے تو وہ لا الہ کو بھول جاتا ہے یا پہر لا الہ سے اگے ہی نہیں بڑھتا اور وہ یکسر خدا کا انکار کر بیٹھتا ہے یہ دونوں مرحلے یا دونوں طریقے نقصان دہ ہی ہیں۔جو کوئی لا الہ پر ٹک کے کھڑا ہوکر ال للہ کو پا لیتا ہے تب جا کہ وہ رسالت تک رسائی کر پاتا ہے یہی سبب ہے کہ ہم لا الہ ال للہ کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ تک پہنچ جاتے ہیں تب یہ بگاڑ پیدا ہوتے ہیں جس سے معاشرہ دوچار ہے ہم لا الہ کہہ کر ھزاروں خدائوں کو عملی طور مان رھے ہوتے ہیں اور ال اللہ کہ کر اللہ کے سوا سب کی سن رھے ہوتے ہیں رہی بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تک پہنچنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ لا الہ ال اللہ در اصل راستہ ہے رسول تک پہنچنے کا ہم ابھی راستے میں ہیں اور اگر راستے میں ہوتے تب بھی ہہنچ جاتے افسوس کہ ھم بھی راستے سے پیچھے لا تک الجھ کر رہ گئے ہیں یہی خالی لا وہ انکار ہے جو ھم نے اپنی ذات سے لے کر رسول اللہ تک اپنایا ہوا ہے اور ہر اس چیز کا اقرار کیا ہوا ہے جس کے لیے لا ہو نا چاہیے تھا آج کوئی ایسا مسلم ملک نہیں جس کی مثال اچھے لفظوں میں دی جا سکے اس کی وجہ اسلام نہیں اس کی وجہ آج کا مسلمان ہے جو اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے جو اپنی پیدائش کے سبب کو نہیں سمجھ سکا جو یہ بھی نہیں سمجھ پایا کہ سمجھنا کیا چاہیے اور یہ وہ غلطیاں ہیں جن کا رجوع کرنے سے بھی شاید کچھ نہ بن پائے ھمارا باپ آدم علیہ السلام اپنی غلطی مان کر سرخرو رہا اور ہم اس پیغمبر کی اولاد ہو کر اس کے واقعے سے کچھ نہیں سمجھ پائے اور یہ ھمارا تیسرا اور آخری فیلیوئر ہے۔ جسے کے بعد کچھ بھی نہیں سوائے اس فیصلے کے جو بہت زیادہ قریب ہے۔
Tags:
mukalma