Our Journey

 انسان کی یہ نیچر ہے کہ وہ سوال پوچھتا ہے اور اس کا جواب دینے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے تو کیا معاملہ ہے کہ انسان سوال بھی پوچھتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے ان دونوں معاملات کا تعلق علم سے ہے۔

علم ہی سے سوال کا ذھن بنتا ہے اور علم ہی سے جواب کا ذھن بنتا ہے لیکن دونوں علوم میں ایک بنیادی فرق ہے سوال کا تعلق علم کی مزید حاصلات ہے اور جواب کا تعلق اس مزید علم تک پہنچ چکنا ہے۔

 

لیکن جب جواب کے مقابلے میں سوال ابھرے تو وہ سوال شعور کا معاملہ ہے نہ کہ علم کا۔شعور وہ جگہ ہے جہاں سے علم کا گذر محتاط ہو جاتا ہے کیوں کہ شعور علم کی کسوٹی بھی ہے اور یہ سوال علم کے سفر سے شعور تک پہنچتا ہے اب اس کا جواب بھی شعور کے تحت ہونا چاہیے نہ کہ علم کے تحت جب انسان ان چیزوں کا لحاظ نہ کر پائے تو جو صورت حال بنتی ہے وہ ابھام کی صورت ہے اور ابھام وہ جگہ ہے جہاں سے حاصلات کے سفر کی واپسی ہےآپ سفر وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں آپ ہیں جب ہمارے بڑے اگے جانے کے بدلے پیچھے کی طرف سفر کر کے جہاں ہمیں چھوڑ گئے ہیں ہمارا سفر پہر وہیں سے شروع ہوتا ہے اب اگر آپ اسی ابھام میں گہرے ہوئے ہیں تو آپ کا سفر پہر مزید پیچھے کی طرف ہے تو کیا آپ کو یہ ادراک نہیں کہ آنے والی نسلیں اپنا سفر مزید پیچھے سے شروع کریں گی اور یہ زیادہ ممکن ہے کہ ان کا سفر آپ کے مزید پیچھے کے سفر سے زیادہ پیچھے کا سفر ہو۔اس بارے میں جارج برنارڈ شا نے بڑی معقول بات کہی تھی جارج برنارڈ شا شیکسپیئر کے تقریباً دو سو سال بعد میں آیا تھا جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ شیکسپیئر مجھے سے بڑے قد کا مالک تھا (رطبے کے لحاظ سے) لیکن میں شیکسپیئر کے کاندھوں پر کھڑا ہوں۔ یعنی شیکسپیئر نے انگریزی زبان کو جہاں پہنچایا تھا جارج برنارڈ شا کا سفر وہاں سے شروع ہوا اور وہ سفر اسی شعور کے ساتھ جاری ہے جو نہ جاری ہے بلکہ مزید آگے کی طرف جاری ہے۔ اب آپ سوال بھی کریں اور اس کا جواب بھی تلاش کریں جب نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر پہنچ کر پہلا قدم رکھ کر جو پہلاجملا کہا تھا وہ یہ تھا کہ "یہ انسان کا ایک قدم ہے لیکن انسانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے"
ہم کس ابھام کا شکار ہیں ہمارا سفر کس طرف ہے اس سوال کا جواب تلاش کریں وہ جواب علم سے ہونا چاہیے اگر اس جواب کے مقابلے پہر کوئی سوال ابھرے تو پہر اپنے شعور کو آواز دے کر دیکھ لیں۔

knockofart.com
By 
Razaque Laghari

 

Post a Comment

Previous Post Next Post